محمد رسول اللہ ﷺ ۔ کتاب: تاریخِ اسلام 1

Mo Arif
0

    




                                               ‌کتاب: تاریخِ اسلام
                                                            پیش لفظ
                                          عنوان: محمد رسول اللہ 
                       مصنف: مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی 

{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ٭ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ٭ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ٭ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن ٭ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم ٭ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ٭ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْن} اللھم صل علی محمد و علٰی ال محمد کما صلیت علٰی ابراھیم و علٰی ال ابراھیم انک حمید مجید اما بعد رب اشرح لی صدری و یسرلی امری و احلل عقدۃ من لسانی یفقھوا قولی۔

لا الہ الا اللہ
تاریخ عالم پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک اور ہر زمانے میں جس قدر نبی‘ مصلح‘ پیشوا اور بانیان مذاہب گذرے ہیں ‘ وہ سب کے سب ایک ذات واجب الوجود۱ کے قائل و معتقد تھے اور سب نے اپنی اپنی جماعت کو اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یقین دلانے کی کوشش کی۔ سیدنا آدم علیہ السلام ‘ سیدنا نوع علیہ السلام ‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ‘ سیدنا موسیٰ علیہ السلام ‘ سیدنا محمد ﷺ کے زمانوں میں اگرچہ سینکڑوں ‘ ہزاروں برس کے فاصلے ہیں ‘ لیکن سب کی تعلیم میں توحید باری تعالیٰ کا مسئلہ مشترک ہے۔
کرشن جی‘ رامچندر جی‘ گوتم بدھ اورگورونانک ہندوستان میں ہوئے‘ کیقبادو زرتشت ایران میں گذرے‘ کنفیوسس چین میں ‘ سیدنا لقمان یونان میں ‘ سیدنا یوسف علیہ السلام مصر میں ‘ سیدنا لوط علیہ السلام شام و فلسطین میں تھے‘ لیکن توحید باری تعالیٰ کا مسئلہ سب کی تعلیمات میں موجود ہے۔۲
دنیا کے قریباً تمام آدمی ‘ بچے‘ بوڑھے ‘ جوان‘ عورت‘ مرد‘ عیسائی ‘ یہودی وغیرہ اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں ‘ یا صرف چند جو کسی قطار میں نہیں آ سکتے‘ ممکن ہے ایسے بھی مل سکیں جو اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کا انکار کریں مگر دل ان کے بھی ہستیٔ باری تعالیٰ کے اقرار پر مجبور ہیں اور ان کو بالآخر یہ ضرور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ سلسلہ علل و معلول کسی مدبر بالارادہ کے ماتحت چل رہا ہے۔ اسی مدبر بالارادہ ہستی کا نام اللہ تعالیٰ ہے۔
بہ لوحے گرہزاراں نقش پیدا است
نیاید بے قلمزن یک الف راست
دنیا کے اس عظیم الشان اتفاق کے انکار اور تمام اہل دانش و بینش کے متفقہ عقیدے کی تغلیط و تردید پر کوئی شخص جو دیوانہ نہ ہو آمادہ نہیں ہو سکتا۔
محمد رسول اللہ ﷺ 
روما کی عظیم الشان سلطنت کے ٹکڑے ہو چکے تھے۔ اس کے نیم وحشیانہ آئین و قوانین بھی مسخ ہو کر اپنے مظالم و معائب کو اور بھی زیادہ مہیا و موجود اور محاسن کو جو پہلے ہی بہت کم تھے معدوم و مفقود کر چکے تھے‘ ایران کی بادشاہی ظلم و فساد کا ایک مخزن بنی ہوئی تھی‘ چین و ترکستان خونریزی و خونخواری کا مامن نظر آتے تھے‘ ہندوستان میں مہاراجہ اشوک اور راجہ کنشک کے زمانہ کا نظام و انتظام ناپید تھا‘ مہاراجہ بکرماجیت کے عہد سلطنت کا تصور بھی کسی کے ذہن میں نہیں آ سکتا تھا۔ نہ بدھ مذہب کی حکومت کا کوئی نمونہ موجود تھا۔ نہ برہمنی مذہب کا کوئی قابل تذکرہ پتہ و نشان دستیاب ہو سکتا تھا‘ عارف بدھ کا نام عقیدت سے لینے والوں کی حالت یہ تھی کہ حکومت کے لالچ‘ دنیا طلبی کے شوق اور ضعیف الاعتقادی کے نتیجہ میں سخت سے سخت قابل شرم حرکات کے مرتکب ہو جاتے تھے‘ شری کرشن کے نام کی سمرن جپنے والوں کی کیفیت یہ تھی کہ اشرف المخلوقات کو نباتات و جمادات کے آگے سربسجود بنا دینے میں ان کو دریغ نہ تھا‘ یورپ اگر ایک بیابان گرگستان اور وہاں کے باشندے خوں آشام و مردم کش درندے تھے تو عرب تمام عیوب و فسادات کا جامع تھا اور وہاں کے باشندے حیوانوں سے بھی بدتر حالت کو پہنچ چکے تھے۔غرض کہ دنیا کے کسی ملک اور کسی خطہ میں انسانی نسل اپنی انسانیت اور شرافت پر قائم نظر نہیں آتی تھی اور بحروبر سب مائوف ہو چکے تھے۔ ایسی حالت میں جب کہ تمام دنیا تیرہ و تار ہو چکی تھی‘ ہندوستان والوں کا فرض تھا کہ وہ گیتا کے چوتھے باب میں شری کرشن مہاراج کے اس ارشاد پر غور کرتے کہ:
’’اے ارجن جب دھرم کی ہانی۱ ہوتی ہے اور ادھرم۲ بڑھ جاتا ہے‘ تب میں نیک لوگوں کی رکھشا۳ کرتا ہوں اور پاپوں کا ناش۴ کر کے دھرم کو قائم کرتا ہوں ۔‘‘
ایران والوں کا فرض تھا کہ وہ شست و خشور زرتشت کے ارشادات کے موافق کسی رہبر کی تلاش میں نکلتے‘ یہودیوں کے لیے وقت آ گیا تھا کہ وہ فاران کے پہاڑوں کی چوٹیوں سے روشنی کے نمودار ہونے کا انتظار کرتے اور معماروں کے رد کئے ہوئے پتھر کو کونے کا پتھر بنتے ہوئے دیکھ کر ضد اور انکار سے باز رہتے۔ عیسائیوں کا فرض تھا کہ وہ دعائے خلیل اور نوید مسیحا کو اپنی امید گاہ بناتے۔ لیکن دنیا کے عالمگیر فساد اور زمانہ کی ہمہ گیر تاریکی نے دلوں کو اس قدر سیاہ اور آنکھوں کو اس قدر بے بصارت بنا دیا تھا کہ کسی کو اتنا بھی ہوش نہ تھا کہ اپنے آپ کو مریض جانتا اور دوا کی طلب میں قدم اٹھاتا۔
ایسے زمانے اور ملک عرب جیسے خطے میں ہادی برحق رسول رب العالمین خیر البشر‘ شفیع المذنبین سیدنا محمد ﷺ نے شرک کی خباثت‘ بت پرستی کی تاریکی‘ فتنہ و فساد کی نجاست اور عصیان و بے شرمی کی پلیدی کو دور کرنے کے لیے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی آواز بلند کر کے انسان نما لوگوں کو انسان‘ انسانوں کو بااخلاق انسان اور با اخلاق انسانوں کو با خدا انسان بنا کر دنیا کی تاریکی و ظلمت کو ہدایت‘ نور ‘ امن‘ راستی اور نیکی سے تبدیلی کرنے‘ یعنی گمراہ‘ بت پرست‘ عصیاں شعار لوگوں کو مسلمان بنانے کا فریضہ انجام دیا۔
سیدنا نوح علیہ السلام عراق عرب کے گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لانے میں سینکڑ وں برس مصروف تبلیغ رہ کر بالآخر {رَّبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا} ۵ کی تلوار سے سب کا قصہ پاک کرنے پر مجبور ہوئے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے مصریوں اور ان کے متکبر بادشاہ کو راہ راست پر لانے کی امکانی کوشش کی لیکن بالآخر موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل نے وہ نظارہ دیکھا جس کی نسبت ارشاد ہے کہ : {وَ اَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ} ۶ ہندوستان میں مہاراجہ رام چندر جی کو لنکا پر چڑھائی اور راکھشسوں سے لڑائی کرنی پڑی شری کرشن مہاراج کو کرکشتر کے میدان میں ارجن کو جنگ پر آمادہ کرنا اور کوروں کی نافرمان جماعت کو پانڈوں کے ہاتھوں برباد کرانا پڑا‘ ایران میں زرتشت نے اسفند یار کی پہلوانی اور سلطنت کیانی کی حکمرانی کو ذریعہ‘ تبلیغ و اشاعت بنایا۔
مگر ماضی کے صحائف اور عمرانی روایات جو اہل نظر تک پہنچی ہیں سب کی سب متفق ہیں کہ تمام قابل تکریم بانیاں مذاہب اور مستحق احترام ہادیان صداقت کی کوششوں اور کامیابیوں میں یہ نظیر ہرگز تلاش نہیں کی جا سکتی کہ پچیس سال سے کم مدت میں دنیا کا بہترین ملک اور عرب کے جاہل وحشی لوگ ساری دنیا کے معلم اور سب سے زیادہ مہذب و با اخلاق بن گئے ہوں ‘ سو برس سے کم یعنی صرف اسی سال کے عرصہ میں سیدنا محمد ﷺ کے لائے ہوئے مذہب کو ماننے والے بحراطلا نطک سے بحرالکاہل یعنی چین کے مشرقی ساحل تک یا‘ یوں کہے کہ تمام متمدن دنیا کا احاطہ کر چکے ہوں ‘ اس محیر العقول اور خارق عادت کامیابی کی نظیر دنیا پیش نہیں کر سکتی اور تعلیم اسلامی کی خوبی اگر تمام قوانین مذاہب پر فائق اور محاسن ملل کی جامع ہے تو سیدنا محمد ﷺ کے خیر البشر‘ خاتم النبیین‘ رحمتہ للعالمین ہونے میں کسی کو کیا کلام ہو سکتا ہے؟ اور دنیا میں کس کا حوصلہ ہے جو ان کی لائی ہوئی کتاب قرآن مجید کی اس لانظیر صفت اور اس ناقابل تردید دعوی اور خدائی دعوی کی تردید پر آمادہ ہو سکے کہ : {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ} ۱
قوموں کو منازل ترقی طے کرانے اور قوموں کو ذلت و پستی سے بچانے کے لیے تاریخ ایک زبردست مؤثر اور نہایت قیمتی ذریعہ ہے‘ قومیں جب کبھی قعر مذلت سے بام ترقی کی طرف متحرک ہوئی ہیں انہوں نے تاریخ ہی کو سب سے بڑا محرک پایا ہے‘ قرآن کریم نے ہم کو یہ بھی بتایا ہے کہ سعادت انسانی اور دین و دنیا کی کامرانی حاصل کرنے کے لیے تاریخ کا مطالعہ نہایت ضروری ہے‘ چنانچہ خدائے تعالٰے نے لوگوں کو عبرت پذیر اور نصیحت یاب ہونے کے لیے کلام پاک میں جا بجا امم سابقہ کے حالات یاد دلائے ہیں کہ فلاں قوم نے اپنی بد اعمالیوں کے کیسے بدنتائج دیکھے اور فلاں قوم اپنے اعمال حسنہ کی بدولت کیسی کامیاب و فائزالمرام ہوئی‘ آدم‘ نوح‘ ابراہیم‘ موسیٰ ( علیھم السلام ) وغیرہم کے واقعات اور فرعون نمرود‘ عاد‘ ثمود وغیرہم کے حالات قرآن کریم میں اسلیے مذکور و مسطور نہیں کہ ہم ان کو دل بہلانے اور نیند لانے کا سامان بتائیں بلکہ یہ سچے اور یقینی حالات اس لیے ہمارے سامنے پیش کئے گئے ہیں کہ ہمارے اندر نیک کاموں کے کرنے کی ہمت اور بداعمالیوں سے دور رہنے کی جرأت پیدا ہو اور ہم اپنے حال کو بہترین مستقبل کا ذریعہ بنا سکیں ۔
انبیاء علیہم السلام جو بنی نوع انسان کے سب سے بڑے محسن‘ سب سے زیادہ خیر خواہ اور سب سے زیادہ شفیق علی خلق اللہ ہوتے ہیں ‘ انہوں نے جب کبھی کسی قوم کو ہلاکت سے بچانے اور عزت اور سعادت سے ہمکنار بنانے کی سعی و کوشش فرمائی ہے تو اس کو قوم کو عہد ماضی کی تاریخ یاد دلائی ہے‘ دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں اور ریفارمروں میں کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا جس کو حالات رفتگان اور گزرے واقعات کے مطالعہ نے محوو مدہوش اور از خودفراموش بنا کر آمادہ کار اور مستعد سعی و ایثار نہ بنایا ہو‘ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک واعظ اور ہر ایک لیکچرار جو سامعین کو اپنے حسب منشاء پر جوش اور آمادہ کار بنا سکتا ہے اس کے وعظ یا لیکچر میں ماضی کے واقعات اور بزرگان گذشتہ کے حالات کی یاد دہانی یعنی تاریخی چاشنی ضرور موجود ہوتی ہے‘ مشاہیر گذشتہ کے حالات و واقعات میں بھی جن مشاہیر سے مذہبی‘ قومی‘ ملکی تعلقات کے ذریعہ سے ہمارا قریبی رشتہ ہوتا ہے ان کے حالات کا ہم پر زیادہ اثر ہوتا ہے‘ رستم و اسفند یار اور گشتاسب و نوشیراواں کے حالات کا مطالعہ جس قدر ایک ایرانی یا ایک پارسی کے دل میں شجاعت مذہبیت اور عدل و انصاف کے جذبات کو مشتعل بنا سکتا ہے کسی چینی یا ہندوستانی پر ویسا اثر نہیں کر سکتا‘ بھیم وارجن اور بکرما جیت وپرتھی راج کی داستانیں ہندئوں پر جو اثر کرتی ہیں عیسائیوں پر ان کا ویسا ہی اثر نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ آج جب کہ قوموں کی تاریخ کے اثر و نتائج سے لوگ واقف ہو چکے ہیں اور یہ حقیقت عالم آشکارا ہو چکی ہے کہ کسی قوم کو زندہ کرنے اور زندہ رکھنے کے سامانوں میں اس قوم کی گذشتہ تاریخ سب سے زیادہ ضروری سامان ہے‘ تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ قومیں جو اپنی کوئی باعظمت و پرشوکت تاریخ نہیں رکھتیں فرضی افسانوں اور جھوٹے قصوں کی تصنیف و تالیف میں مصروف ہیں ‘ اور ان فرضی قصوں کوتاریخی جامہ پہنا کر افراد قوم اور نوجوانان ملک کے سامنے اس طرح پیش کر رہی ہیں کہ ان کی صداقت کا یقین ہو جائے‘ دروغ کو فروغ دینے کی یہ قابل شرم کوشش قوموں کو محض اس لیے کرنی پڑ رہی ہے کہ وہ قومیں اپنے افراد کو ان کے علو مرتبت کا یقین دلائے بغیر مسابقت اقوام کے میدان میں تیز گام بنا ہی نہیں سکتیں اور یہی سبب ہے کہ ہر ایک وہ قوم جو کسی دوسری قوم کو رقابت یا عداوت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اس کی تاریخ کو مسخ کرنے اوراس کے افراد کو اپنی تاریخ سے غافل اور ناواقف رکھنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہے۔

एक टिप्पणी भेजें

0टिप्पणियाँ

एक टिप्पणी भेजें (0)